0

حساب | حکایت رومی

حساب

خواب میں دیکھے جانے والے حالات کی صداقت خواب دیکھنے والے کی بستی اور حیثیت سے مشروط ا ہے چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا جو عین بعین سچ نکلا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھ کر اس کی تعبیر کرنا خواب دیکھنے والے کی روحانی کیفیت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے آپ کو کس پیرائے میں رہا کر تعبیر نکالتا ہے۔ یہی خواب کے مناظر جب ایک شخص دوسرے کو بتاتا ہے اور دوسرا تیسرے کو تو نہ صرف الفاظ بدل جاتے ہیں بلکہ معنی بھی کچھ سے کچھ بن جاتے ہیں اور پھر ایسے خوابوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو خواب دیکھنے والے پر طرح طرح کا گمان ہونے لگتا ہے ۔ جہاں پر ایسا لگتا ہے کہ یہ غالبا سچ نہیں بلکہ
محض ایک خود سے تراشا ہو واقع بیان ہو رہا ہے ۔
خوابوں کی تعبیر بتانا کچھ آسان نہیں یہ علم بڑا ہی پیچیدہ اور گہرے روحانی مطالعہ کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ کے بندوں نے خواب کی تعبیر بتانے والے کو اعلیٰ معیار کی احتیاط کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ یہ کوئی معمولی علم نہیں ہوتا ہے یہ مومنوں اور غیر مومن لوگوں کے دلوں پر اللہ کے حکم کے افشا کرنے کا طریقہ ہے ۔ اور نیک و بد سے آگاہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔
خوابوں کا علم ایک بیش بہا علم ہے اس کے لئے انسان کا نیک اطوار ہونا پابندی شریعت کم کوئی کم خوراکی اور کم مجلسی ضروری ہے ۔ کیونکہ خواب کی تعمیر دینا فن پیغمبری ہے۔ یہ نبیوں کا شیوہ رہا ہے کہ وہ لوگوں کے خوابوں کی تعبیر بتائیں یہاں صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے که خواب دیکھنا اگر ایک سچائی ہے تو خواب کی تعبیر بھی ایک سچائی ہے یہ اور بات ہے کہ تعبیر
تانے والے نے غلطی کر دی ہو۔
یہ امر وعی طور پر مسلمہ ہے کہ ان خوابوں سے اللہ کی غرض وغایت یہی ہوتی ہے کہ
دور اوق پر چلنے والوں نیک خصلت لوگوں کو اور راہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ مستقیم کی جانب
گامزن کرے ۔ ایسے واقعات میں سے صرف دو اس جگہ نقل کئے جاتے ہیں۔
” حضرت عباس بن عبد المطلب سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
میرے دوست تھے۔ جب ان کا وصال ہوا تو ایک سال تک میں دعا کرتا رہا کہ مجھے ان کی
یعنی حضرت عمر کی زیارت نصیب ہو جائے ۔ آخر ایک سال پورا ہونے کے بعد انکی زیارت
نصیب ہوئی تو دیکھا کہ آپ پیشانی سے پسینہ صاف فرما رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیسا سلوک کیا تو آپ نے فرمایا کہ حساب و کتاب سے فارغ ہوا
ہوں او راگر میرا ارب رون درحیم نہ ہوتا تو میری عزت خاک میں مل جاتی
دوسرے واقعہ میں بھی ابن سعد نے عبداللہ بن عمر بن عاص سے روایت کرتے
ہوئے لکھا ہے کہ مجھے ( یعنی عبداللہ بن عمر بن عاص ) بڑا شوق تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی
عنہ کے معاملے پر اطلاع پاؤں ۔ ایک روز خواب میں ایک محل دیکھا میں نے پوچھا کہ یہ
کس کا ہے۔ ابھی میں پوچھ ہی رہا تھا حضرت عمر اس میں سے نکلے۔ آپ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ غسل فرما کر آرہے ہیں میں نے دریافت کیا کہ معاملہ کیسا رہا تو آپ نے فرمایا۔ اگر میرا رب رؤف و رحیم نہ ہوتا تو میری بے عزتی ہو جاتی ۔ بارہ سال تم
سے جدا ہوئے ہو گئے ہیں اور آج حساب سے فارغ ہوا ہوں۔ مذکورہ بالا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واقعہ کی حقیقت کو سامنے رکھ کر جاننا چاہئے کہ حضرت عمر عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور یہ کہ وہ شہید ہوئے اور شہید کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اس کے قطرہ خون کے زمین پر گرنے سے پہلے اسے جنت الفردوس میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ پھر حضور ا کرم کی یہ حدیث و فرمان بھی نہ بھولئے کہ انہوں نے حضرت عمرؓ کے بارے میں فرمایا تھا کہ جدھر سے عمر گزرتا ہے شیطان آگے آگے بھاگ کر جان بچاتا ہے۔ یاد رکھیں : ☆
☆ اچھے کام کریں ، انسانیت کی خدمت کریں کسی کا دل نہ توڑیں۔ خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔
قیامت کا دن بڑا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ہم حساب لیں گے پھر جس کو چاہیں گے بخش دیں گے ۔ یقین رکھیں کہ اللہ بخشے والا ہے۔”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں