0

ناشکری کی سزا

نہ شکری کی سزا

 

نبا ” عرب کا ایک قبیلہ ہے۔ مشہور ہے کہ اس قوم کی بستی یمن میں شہر صنعاء سے چھ میل کی دوری پر واقع تھی۔ اس آبادی کی آب و ہوا اور زمین اتنی صاف اور اس قدر لطیف و پاکیز تھی کہ اس میں مچھر نہ بھی نہ پسو بھٹکل نہ سانپ نے بچو۔ موسم نہایت معتدل نہ گرمی نہ سر دی ۔ یہاں کے باغات میں کثیر پھل آتے تھے۔ کہ جب کوئی شخص سر پر ٹو کرالئے گزرتا تو بغیر ہاتھ لگائے قسم قسم کے پھلوں سے اس کا ٹوکرا بھر جاتا تھا۔ عرض یہ قوم بڑی فارغ البالی اور خوشحالی میں امن و سکون اور آرام و چین سے زندگی بسر کرتی تھی مگر نعمتوں کی کثرت اور خوشحالی نے اس قوم کو سرکش بنا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کی ہدایت کے لئے یکے بعد دیگرے تیرو نبیوں کو بھیجا جو اس قوم کو خدا کی نعمتیں یاد دلا دلا کر عذاب الہی سے ڈراتے رہے۔ مگر ان سرکشوں نے خدا کے مقدس نبیوں کو جھٹلا دیا اور اس قوم کا سردار جس کا نام حماد تھا وہ اتنا متکبر اور سرکش آدمی تھا کہ جب اس کا لڑکا مر گیا تو اس نے آسمان کی طرف تھوکا اور اپنے کفر کا اعلان کر دیا۔ اور اعلانیہ لوگوں کو کفر کی دعوت دینے لگا اور جو کفر کرنے سے انکار کرتا، اس کو قتل کر دیتا تھا اور خدا عز و جل سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نعمتوں کو ہم سے چھین لے ۔ جب حماد اور اس کی قوم میں طغیان و عصیان بہت زیادہ بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر سیلاب کا عذاب بھیجا۔ جس سے ان لوگوں کے باغات اور اموال و مکانات سب غرق ہو کر فنا ہو گئے اور پوری بستی ریت کے تو دوں میں دفن ہوگئی اور اس طرح یہ قوم تباہ و بر باد ہوگئی کہ ان کی بر بادی ملک عرب میں ضرب المثل بن گئی عمدہ اور لذیذ پھلوں کے بانات کی جگہ جھاؤ اور جنگی بیروں کے خاردار اور خوفناک جنگل اگ گئے اور یہ قوم عمدہ اور لذید بچوں کے لئے ترس گئی۔ قوم سبائی بستی کے کنارے پہاڑوں کے دامن میں بند باندھ کر ملکہ بلقیس نے تین بڑے بڑے تالاب نیچے اور پر بنا دئیے تھے۔ ایک چوہے نے خدا عزو جل کے حکم سے بند کی دیوار میں سوراخ کر دیا اور بڑھتے بڑھتے بہت بڑا شگاف بن گیا یہاں تک کہ بند کی دیوار ٹوٹ گئی اور زور دار سیلاب آگیا۔ بستی والے اس سوارخ اور شکاف سے غافل تھے اور اپنے گھروں میں چین کی بانسری بجا رہے تھے کہ اچا نک سیلاب کے دھاروں نے ان کی بستی کو غارت کر ڈالا۔ اور ہر طرف بر بادی اور ویرانی کا دور دورہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم سبا کے اس بلاکت آفریں سیلاب کا تذکرہ فرماتے ہوئے قرآن مجید میں فرمایا۔ لقد كان لسما في مسكنهم أية جنتان عن يمين و شمال کلوا من رزق ربكم واشكر و اله بلدة طيبة و رب غفور ) فاعرضو فأرسلنا عليهم سيل العرم وبد لنهم بجنتيهم جنتين ذواتي اكل خمط و اثل و شیء من سدر قلیل ) ذلك جزيتهم بما كفروا وهل نجزى الا الكفور ) بے شک سبا کے لئے ان کی آبادی میں نشانی تھی دو باغ رہنے اور بائیں اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو ۔ پاکیزہ شہر اور بخشنے والا رب تو انہوں نے منہ پھیرا تو ہم نے ان پر زور کا ابلا ( سیلاب ) بھیجا اور ان کے باغوں کے عوض دو باغ انہیں بدل دئیے جن میں ( بدمزہ ) میوہ اور جھاؤ اور کچھ تھوڑی سی بیریاں ہم نے انہیں یہ بدلہ دیا ان کی ناشکری کی سزا اور ہم کے سزا دیتے ہیں اسی کو جو نا شکرا ہے ۔ قوم سبائی یہ فلاکت و بر بادی ان کی سرکشی اور خدا عزوجل کی نعمتوں کی ناشکری کے سبب سے ہوئی۔

 

مولا تا روم مذکورہ حکایت میں یہ درس دیتے ہیں :

 

 ☆ نیکی کا اثر آبادی اور بدی کا اثر بر بادی ہے۔

 

☆ ہمیشہ ہر حال میں رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔

 

 

رب کی پہچان خودی کو مٹا دو

 
مومن کو ہر حال میں اللہ ذات کا طالب رہنا چاہئے محض اس کے ناموں کو کافی نہیں سمجھ لینا چاہیے ۔ ہاں اللہ کے اسماء اور صفات کا ذکر یاورد، ذات باری تعالیٰ تک پہنچے کا ذریعہ ضرور ہیں۔ دلالت کرنے والے کا وجود اس چیز کے وجود کی علامت ہے جس پر دلالت کرتا ہے۔ عوام کا خیال ہے کہ راستے میں چھلاوے ہوتے ہیں جو انسان کو بھٹکا دیتے ہیں۔ مگر جہاں چھلا وہ ہے وہاں راستہ بھی ضرور ہے ۔ ہر اسم کا سمئی ضرور ہوتا ہے خواہ اس کا وجود خارج میں ہو یاذ ہن میں۔ ہاں منفعت صرف مسلمی سے ہے نام سے نہیں گی اورل گل ہفتے ہیں لیکن ان میں خوشبو تو نہیں ، رنگ تو نہیں، پھول کا حسن تو نہیں تو اگر نام اور حرفوں سے آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اپنے آپ کو خود سے بلکل پاک کرلے لوہے کی طرح لوے بین سے بے تعلق ہو جا۔ ریاضت کر کے بغیر زنگ کا آئینہ بن جا۔ اپنے آپ کو اپنے اوصاف سے پاک کرلے تا کہ تواپنی پاک صاف ذات اس حالت میں ، دیکھے کہ دل میں انبیاء کے علوم ہوں۔ جو بغیر دو ہر انے اور بغیر استاد کے پڑھے جائیں۔
 
 
مولانا روم مذکورہ حکایت میں یہ درس دیتے ہیں :
 
☆ جب آدمی خودی کو مٹا دیتا ہے تو اسرار الہیہ اس پر وارد ہو نا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر تو اللہ کا قرب چاہتا ہے تو اپنے آپ کو اپنے اوصاف سے پاک کرلے۔
 
حکایت
 

جس علم کے حصول میں رب کی پہچان نہ ہو

 
وہ دل کا بوجھ ہے یاد رکھو حقائق باطنہ کا محض ظن کی بنیاد پر انکار درست نہیں ہے۔ سورج اللہ کی وضاحت میں جھگڑ حق کا سورج جب سر پر آجائے گا تو پھر گمراہ اپنی سواریوں کو دیکھیں گے کہ انہوں نے اپنے پاؤں کو ہی سواری بنایا ہے، جس سے وہ کچھ سفر طے نہیں کر سکتے ۔ بلکل اسی طرح جیسے بچہ بانس کو اپنا گھوڑا سمجھ رہا تھا۔ علوم انسان کو راحت مہیا کرتے ہیں لیکن فنی علوم وبال جان ہیں۔ علم اگر تن کے لیے ہے تو بوجھ بن جائے گا لیکن اگر دل کیلئے ہے تو مہ دگار ہوگا۔ دل کا علم وہ ہے جو الہام اور روحی سے حاصل ہو ۔ اللہ نے فرمایا ” یحمل اسفارہ ” یعنی اپنی کتابیں لادے ہوئے ہیں۔ وہ علم بوجھ ہوتا ہے جو اللہ کی جانب نہ لے جاتا ہو کسی علوم کے
 
بعد انسان کے دل میں ایک نور پیدا ہوتا ہے وہی کیفیت ہے اگر کسی علوم کو بھی اللہ کی طرف
 
ادراک کی غرض سے حاصل کیا جائے تو بیکار نہیں ہے۔
 
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ایک وہ ہے جو میری
 
ہمت میں میرا شریک ہوگا۔ ان کی جان مجھے اس نور سے دیکھے گی جس سے میں دیکھتا ہوں۔ مشاہدہ کی یہ صورت عشق سے حاصل ہوتی ہے جو کہ روح کے لئے آب حیات ہے۔
 
مولانا روم مذکورہ حکایت میں یہ درس دیتے ہیں :
 
☆ علم معرفت الہی کے لئے ہونا چاہئے۔ تو یہ روح کی غذا کہلاتا ہے۔ ہیں جس علم میں رب تعالی کی پہچان نہ ہو وہ علم انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔
 
 

حکایت

 

نیکی کے کام میں دیر نہ کریں

 
حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ سخاوت بہشت کا ایک درخت ہے ۔ جو شخص سخی ہے . اس نے اس درخت کی ایک شاخ کو پکڑ رکھا ہے ۔ وہ شاخ اس کو نہیں چھوڑتی جب تک اس کو بہشت میں داخل نہیں کر لیتی ۔ اے انسان تو حُسن کا یوسف ہے اور یہ جہان کنواں ہے اور رہی خدا کے حکم پر صبر کرنا ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں نجات کا ذریعہ بھی بتا دیا ہے جو کہ تو بہ واستغفار ہے ۔ اس ذریعے سے خدا کے مقربوں سے خدا کے مقربوں میں داخل ہو جاؤ ۔ کسی سے نیکی کرنے کا خیال اگر دل میں آجائے تو فورا کر دینا چاہئے۔ ہو سکتا ہے کہ تھوڑی دیر
بعد کیفیت بدل جائے اور نیکی ہاتھ سے جاتی رہے۔
 
مولانا روم مذکورہ حکایت میں یہ درس دیتے ہیں :
 
☆ سخی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے۔
 
☆ سخاوت بخش کا ذریعہ ہے سخاوت اور خیرات کو اپن
 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں