0

علم اور دولت | حکایت رومی

علم اور دولت

مصر کے ملک میں ایک بہت بڑا تاجر رہتا تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے۔ بڑے بیٹے کو دولت جمع کرنے کا شوق تھا لیکن چھوٹا پڑھنے اور لکھنے کا شوق رکھتا تھا۔ دونوں ایک گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے ایک ہی ماحول کے تربیت یافتہ تھے لیکن دونوں کی سوچ اور فکر میں بہت دوری تھی۔ دولت جمع کرنے والے نے ہر حیلے وسیلے سے کام لے کر اپنی دولت میں اضافہ کرنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ اس کا ذہن سازشی سا بن گیا اور باپ کی وفات کے بعد اس نے اپنے چھوٹے بھائی کے مال پر بھی قبضہ کر لیا
چھوٹے بھائی کے علم میں جیسے جیسے اضافہ ہوا، اس کی سوچ بلند ہوتی چلی گئی اور مال و دولت سے اس کی دلچسپی کم ہوتی گئی۔ بڑے بھائی کی عزت صرف اس کے نوکر چاکر کرتے تھے۔ جب کہ چھوٹے بھائی کو سارا شہر پسند کرتا تھا۔ بڑا بھائی جب ملک میں سب سے زیادہ امیر ہو گیا تو وہ شاہی دربار تک جا پہنچا۔ اس طرح وہ بادشاہ کے مصاحبوں میں شمار ہونے لگا۔ بادشاہ سلامت کی دوستی سے بھی اس نے ناجائز فائدہ اٹھایا۔ اس طرح اس کی دولت میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ اس کے سازشی ذہن میں عجیب و غریب خیالات آنے لگے۔ دولت کے بل بوتے پر اس نے بہت سے درباریوں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور ایک روز بادشاہ کو مروا کر خود تخت پر قبضہ کر لیا
چھوٹا بھائی اپنے علم کی دنیا میں مگن تھا۔ ایک روز بڑے بھائی نے اسے اپنے دربار میں طلب کیا تا کہ اپنی شان و شوکت کا رعب اس پر جما سکے۔ تم ساری عمر” پڑھا کو ہی رہو گئے بڑے بھائی نے سر پر تاج سجاتے ہوئے کہا میں ترقی کی آخری منزل پر پہنچ کر بادشاہ بن گیا۔ تم نکال کے کنگال ہی رہے تنزیہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے اس نے کہا ” کیا دیا ہے تمہیں ان کتابوں نے؟
پڑھا کو بھائی نے جواب دیا ۔ اے بھائی میں خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے علم کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ علم پیغمبروں کی میراث ہوتی ہے۔ مال و دولت یا حکومت تو فرعونوں کو بھی ملی تھی۔ قارون سے بڑھ کر کون دولت مند تھا لیکن لوگ اسے 2 سے الفاظ میں یاد کرتے ہیں ۔
ناموش گستاخ بڑا بھائی شہنشاہ کے روپ میں آگیا۔ تم یہ کیوں بھول رہے ہو کہ تم اس وقت ایک شہنشاہ کے دربار میں بیٹھے ہو۔ اور اس سے بات کر رہے ہو ۔ دفع ہو جاؤ میری نظروں سے پھر بادشاہ جو اس کا حقیقی بھائی بھی تھا اپنیسپاہیوں کو حکم دیا کہ اس کو جیل میں ڈال دو۔ چھوٹا بھائی جیل میں چلا گیا۔
شہر کے لوگ ایک عالم اور فاضل شخص کی تو ہین پر ناراض ہو گئے ۔ ہوس کا بندہ جو
سازش کے ذریعے تاج و تخت کا مالک بن بیٹھا تھا۔ اپنی رعایا کو خوش نہ رکھ سکا خلق خدا تو پہلے
ی اس سے تنگ آئی ہوئی تھی کسی کی عزت محفوظ تھی نہ جان و مال رفته رفته سارا ملک فسادگی
لپیٹ میں آگیا۔ حکومت چلانے کے لیے جس عقل اور فراست کی ضرورت تھی ، و و اس جائل
دولت مند کے پاس نہیں تھی۔ ملک بھر میں جگہ جگہ بغاوتیں رونما ہوگئیں ۔ فوج کے سپاہی
تک اپنے جاتل حکمران سے خوش نہیں تھے۔ ایک عام آدمی کا کیا حال ہو سکتا تھا۔ ایسے
میں پڑوس کے طاقت ور ملک کا حکمران، مصر پر حملے کی تیاریاں کرنے لگا۔ بادشاہ تو صرف
دولت کا پرستار تھا۔ حملے کا سن کر وہ گھبرا گیا۔ وہ دولت جس کو اس نے پیش و عشرت اور حفاظت
کی ضمانت سمجھا تھا۔ بے بس ہوگئی ۔ دولت اس کا سہارانہ بن سکی۔ اس کے پاس کوئی ایسا جاں
شار بھی نہیں تھا، جس پر وہ اندھا اعتماد کر سکتا۔ اسکا خزانہ بھرا ہوا تھا اور اسی خزانے نے اس کے پاؤں پکڑا رکھے تھے۔ وہ اپنی جان بچا کر بھاگ جانا چاہتا تھا لیک نہ وہ اپنی دولت چھوڑ کر بھاگ سکتا تھا اور نہ اسے اپنے ساتھ لے جاسکتا تھا۔ اس مشکل وقت میں اسے اپنے سگے بھائی کا خیال آیا۔ دو بھائی جسے اس نے خود جیل میں بند کر رکھا تھا۔ آدھی رات کے وقت اس نے جیل کے دارون کو حکم دیا کہ اس کے بھائی کو حاضر کیا جائے ۔ بھائی آیا تو بادشاہ نے اسے معافی مانگی میں اپنے کیے پر بہت زیادہ شرمندہ ہوں تم میرے سگے بھائی ہو، خدا کے لیے مصیبت کی اس گھڑی میں میری مدد کرو ۔ جاہل بادشاہ جو اس کا سگا بھائی تھا مودبانہ گزارش کرتا ہوا نظر آیا۔
چھوٹا بھائی اس کا مسلہ بن کر حیران رہ گیا اور کہنے لگا پیارے بھائی ! میری دولت میر اعلم ہے یہ علم کی دولت خدا کے فضل سے میری حفاظت بھی کر سکتی ہے ۔ آپ کی دولت کسی کام کی، جس کی حفاظت آپ کو کرنی پڑ رہی ہے۔ میری مائیں اور ساری دولت چھوڑ کر اپنی
جان بچائیں۔ دشمن جب آپ کا ملک فتح کرے گا تو سب پہلے آپ کو قتل کرے گا میں اس دولت کو چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہوں، جسے میں نے ساری عمر محنت سے جمع کیا ہے بادشاہ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا اس بہتر ہے کہ میں مری جاؤں ‘ آپ اگرمر گئے تو یہ دولت کسی اور کے قبضے میں چلی جائے گی: صاحب علم بھائی نے سمجھایا۔ کچھ بھی ہو جائے، میں اپنی دولت چھوڑ کر ہرگز نہیں جاسکتا۔ تم کوئی ایسی ترکیب
بتاؤ کہ یہ دولت ہمیشہ میرے پاس رہے بادشاہ نے آخری فیصلہ سنادیا۔ دوسرے روز پروی ملک کے بادشاہ نے حملہ کر دیا۔ وہ فوج پر پیسے خرچ کرنے کو فضول سمجھتا تھا۔ اس کی فوج نے
بغیر کسی لڑائی کے ہتھیار ڈال دیے۔ کچھ سپاہی جنگ کا نام سن کر ہی بھاگ گئے ۔ دشمن کی فوج ویسے بھی مصری فوج سے کئی گنا زیاد تھی ۔ جب دشمن نے شاہی محل پر قبضہ کیا تو بادشاہ اپنی دولت کے قریب سر جھکا کر بیٹھا ہوا تھا۔ اسے اپنے آپ کا بھی ہوش نہیں تھا۔ دشمن بادشاہ نے اس سے صرف ایک سوال کیا۔ احمق انسان ! اتنی دولت جمع کرنے کا آخر مقصد کیا بادشاہ نے اس سے سرو تھا؟ اگر تو نے ہی دولت خرچ کر کے اچھی فوج تیار کی ہوتی تو آج تجھے یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ دولت کو ہمیشہ گردش میں رہنا چاہیے ۔ پانی اگر زیادہ دیر ایک جگہ کھزار ہے تو وہ بد بودار ہو جاتا ہے۔ یہی حال دولت کا ہے ۔ ایک جگہ جمع ہو جائے تو دیکسی کام کی نہیں رہتی۔ یہ سن کر بائل بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے حملہ آور بادشاہ نے سارے ملک پر قبضہ کر لیا۔ اور اس عالم فاضل انسان کو اپنا وزیر اعظم بنالیا۔ علم کی دولت نے ایک بھائی کو عزت بخشی اور سونے چاندی کے لالچ نے دوسرے بھائی کو رسوا کر دیا۔ وزیر اعظم کی سفارش پر اس کے بڑے بھائی کو خدا نے کا چوکیدار مقرر کر دیا گیا۔ وہ خزانہ جسے حاصل کرنے کے لیے اس نے عمر بحر خلق خدا کو طرح طرح سے تنگ کیا تھا۔ اب وہ خزانہ کسی اور کی ملکیت تھا۔ وہاں سے صرف
دیکھ سکتا تھا، اسے خرچ نہیں کر سکتا تھا۔
مولانا روم مذکورہ حکایت میں یہ درس دیتے ہیں:
☆ علم بہت بڑی دولت ہے جہاں تک ہو سکے اسے حاصل کرو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں