0

حلال روزی کی طلب

حلال روزی کی طلب
حضرت داؤد علیہ السلام کا زمانہ تھا۔ انہوں نے ایک شخص کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا اے خدا! مجھے بے محنت روزی عطا فرما و یہ شکایت بھی کر رہا تھا کہ تو نے مجھے کامل بیمار اور ناکارہ پیدا کیا ہے ۔ لہذا مجھے بے محنت و مشقت غیب سے روزی دے کہ میں سوائے تجھے
سے مانگنے کے اور کوئی کوشش نہ کرنے پاؤں ۔ حضرت داؤد علیہ السلام اس وقت کے صاحب کمال پیغمبر تھے ۔ اس قدرشان رکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کی روزی مشقت اور محنت پر رکھی تھی ۔ جب تک آپ زرہ تیار کرنے کی تکلیف نہ اٹھاتے آپ کو روزی میسر نہ آتی تھی۔ اس پر بھی ایک معمولی نکما آدمی حماقت سے یہ چاہے کہ بغیر محنت و تجارت روپے سے دامن بھر لے ایسا خزانہ تو دنیا میں کسی کو نہیں ملا بھلا آسمان پر بے سیڑھی کے کون چودھا کوئی مذاق سے کہتا کلیمیں خوش خبری مل چکی جا اور اپنا خزانہ لے لے کوئی کہتا کہ حضرت اگر خزانہ ہاتھ لگے تو کچھ ہمیں بھی دیتا لیکن وہ دھن کا پکا لوگوں کے طعن دو مذاق اڑانے سے اپنی دعا اور گڑ گڑانا کم ہ کرتا تھا۔ جب اس نے دعاؤں کا تار باندھ دیا تو آخر اس نے جو سب کی سنتا اور مراد میں برلاتا ہے ۔ دعاسنی ۔ چاہے
دعانا گوار ہوا اور چاہے جلد باز انہ ہو لیکن آخر کار مانگنے والا ضرور پاتا ہے۔ ایک دن صبح سویرے بہت ہی آہ وزاری سے وہ شخص اپنی وہی دعارت رہا تھا
کہ ایکا ایک ایک گائے نے سینگ مار کر دروازہ توڑ ڈالا اور گھر میں گھس آئی۔ گائے تو بے مجھے اس کے گھر میں آپہنچی اور اس نے اٹھ کر اس کے ہاتھ پیر باندھ دیے اور اس کے بعد بلا تامل اسے ذبح کر کے فورا قصاب کے پاس لے گیا تا کہ اس کی کھال چھیل کر صاف کر دے۔ گائے کے مالک نے بھی دیکھ لیا اور چلایا کہ بائیں میرے گائے تو بدک کر نکل گئی تھی بتا تو نے اسے کس طرح مار ڈالا۔ ارے بھولے بد معاش پل عدالت میں فیصلہ ہوگا۔ اس نے کہا کہ میں خدا سے بے محنت روزی طلب کرتا تھا اور کس کسی عاجزی منت سے دعا کرتا تھا۔ بروں سے میرا کام دا مانگا تھا۔ یہاں تک کہ ہند نے میرے پاس گائے بھیج دیں۔ جب میں نے گائے دیکھی تو جھٹ کھڑا ہوگیا۔ چونکہ وہ میرا رزق تھا، میری مدتوں کی دعا قبول ہوئی اور مجھے روزی بے محنت ملی اس لیے میں نے اس کو ذبح کر ڈالا۔ بس یہ جواب ہے ۔ گائے کا مالک مارے غصے کے لال پیلا ہو گیا۔ اس کا گریبان پکڑا اور منہ پر چند گھونسے لگائے اور اس کو داؤ د نبی کے پاس پکڑ کر لے چلا کہ اے ظالم چل مجھے اپنے کیے کی سزا دلاؤں۔ ارے دنیا باز یہ دعا دعا کیا بکتا ہے اس نے کہا میں نے بہت دعائیں مانگی ہیں اور اس
خوشامد میں مدتوں اپنا خون آپ پیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ میری دعا قبول ہوئی۔
مالک نے چیخنا شروع کیا کہ اے مسلمانو! یہاں آؤ اور اس کی بکواس تو سنو۔ یہ دعا مانگ کر میرا مال ہڑپ کرنے کا حق جتاتا ہے ۔ اگر عالم میں یہی قانون ہوتا تو خالی دعا کرنے والے دولت دنیا کے مالک ہو جاتے ۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو سارے اندھے فقیر دولت مند امیر بن جاتے ۔ وہ تو رات دن یہی دعا کرتے رہتے ہیں کہ یا الہی تو ہم کو دے اندھوں کی محنت و مشقت سوائے گڑ گڑا کر دعا مانگنے کے اور کیا ہے۔ لیکن بھیک میں سوائے پانی اور روٹی کے انہیں اور کیا ملتا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ مسلمان ٹھیک بات کہتا ہے اور یہ دعا فروش ظالم ہے ۔ ایسی ایسی دعاؤں سے کوئی دولت مند کیسے ہو سکتا ہے اور ایسا فعل شریعت کی حدود میں کیوں کر آسکتا ہے؟ کوئی شخص کسی چیز کا مالک اسی حالت میں ہو سکتا ہے کہ یا خریدے یا بھیک سے حاصل کرے یا وصیت میں پائے یا کوئی خوشی سے دے دے۔ پس یا تو گائے واپس دو یا قید خانے کی سیر کرو ۔ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر کہتا تھا کہ اسے رحیم و کریم میں نے مدتوں اسی آرزو میں دعائیں کی ہیں اور سوائے تیرے ان سے کوئی واقف نہیں تو نے ہی میرے دل میں دعا ڈالی سینکڑوں امیروں کے چراغ روشن کیے۔ میں نے وہ دعائیں خالی خولی نہیں کی تھیں بلکہ یوسف کی طرح کتنے ہی خواب دیکھے تھے۔ اس دعا باز نے مجھے اندھا کہا ہے اے خدا یہ اس کا قیاس ابلیسانہ ہے۔ بھلا میں نے اندھے پن سے دعا کب کی ہے۔ میں نے تو سوائے خدا کے کسی سے بھیک نہیں مانگی۔ اندھا تو اپنی نادانی کی بناء پر خلوق سے سوال کرتا ہے مگر میں نے تو تجھ سے سوال کیا کہ تجھ پر ہر دشواری آسان ہے۔ مخلوق میرے بھی دکھ نہیں پہنچانتی اور میری بات کو بہیو دو جانتی ہے وہ بھی سچ کہتی ہے کیوں کہ سوائے بھیدوں کے جاننے والے اور عیبوں کو چھپانے والے کے اور دوسرا کون ہے جو کہ
غیب دان ہو۔
مدعی نے کہا کہ ابے میری طرف دیکھ اور سچ سچ کہ یہ آسمان کی طرف کیا دیکھتا ہے یہ کیا ڈھونگ بنایا ہے ۔ دھوکے سے اپنی خداری جتارہا ہے ۔ جب تیرا دل ہی مردہ ہے سےاپنی نداری بتارہا ہے۔ جب تیر اول کی مردہ ہے تو کس منہ سے آسمان کی طرف دیکھتا ہے ۔ الغرض سارے شہر میں ہلچل مچ گئی اور اس دعا کرنے والے نے زمین پر سجدے میں سر رکھ دیا۔ کہ اے خدا! بندے کو بد نام نہ کر، اگر میں برا بھی ہوں تو میری برائی کو فاش نہ کر تو جانتا ہے کہ طویل طویل راتوں میں کس کس عجز و انکساری کے ساتھ تجھے پکارتا ہوں۔ اگر میری عبادت کی قدر مخلوق کو نہیں تو نہ ہی مگر تجھ پر تو روشن ہے ۔ اسے خدا یہ لوگ مجھ سے گائے طلب کرتے ہیں تو نے گائے کیوں بھیجی۔ اس میں میری
کوئی خطا نہیں تھی۔
جب حضرت داؤد علیہ السلام باہر تشریف لائے اور غل غپاڑا سنا تو پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے ۔ مدعی نے آگے بڑھ کر عرض کی اے نبی اللہ ! میری گائے اس کے گھر میں گھس گئی۔ اس نے میری گائے کو ذبح کر لیا اب آپ اس سے دریافت کریں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ حضرت ابو داؤد علیہ السلام نے پوچھا کہ اسے شخص بتا تو نے اس کی گائے کیوں ذبح کر ڈالی ۔ واہی تباہی باتیں نہ کر معقول بات کرنا تا کہ اس دعوے کا فیصلہ کیا جا سکے۔ اس نے عرض کی کہ اے داؤد میں سات سال سے دن رات یہیں دعا مانگنا تھا کہ اے کریم و رحیم ! مجھے روزی حلال بے محنت عطافرما۔ شہر کی ساری خلقت کیا مرد اور کیا عورت سب واقف ہیں اور بچے تک اس بات کی نفسی کیا کرتے تھے۔ آپ کسی سے اس کی تصدیق فرمالیں کہ یہ پھٹے کپڑوں والا فقیر بیچ کہتا ہے یا نہیں ۔ اتنی مدت کی دعاؤں کے بعد ایک دن گائے میرے گھر میں آگئی۔ میری آنکھوں میں اندھیری آگئی اس لیے نہیں کہ رزق مل گیا بلکہ اس خوشی میں کہ میری اتنے برسوں کی دعا قبول ہوئی۔ میں نے گائے کو ذبح کر دیا کہ خدا کے شکر میں فقیروں پر تقسیم کر دوں ۔ جس نے میرے دل کی مراد پوری کر دی ۔ حضرت داؤد نے فرمایا کہ ان باتوں کو چھوڑا اگر کوئی شرعی دلیل ہے تو وہ بیان کر کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں کسی معقول دلیل کے بغیر ایسا فیصلہ کر دوں کہ شریعت میں باطل قانون چل پڑے تجھے دو گائے کسی نے بخشی یا تو نے خریدی کہ تو اس کا مالک بن گیا ؟ بس ٹال مٹول نہ کر، اس مسلمان کو قیمت ادا کر اور اگر پاس نہیں ہے تو قرض لے کر دے ۔ اس نے کہا کہ اسے بادشاہ تم بھی یہی کہتے ہو جو بے دردلوگ کہتے ہیں۔ پھر اس نے سچے دل سے آو کی اور کہا اے میرے سوز دل کے جاننے والے تو ہی داؤد کے دل میں اس کی روشنی ڈال۔ یہ کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ یہاں تک کہ داؤد کا دل ہل گیا۔ داؤد نے کہا کہ اے گائے والے آج کے آج مہلت دے اور مقدمہ ملتوی کر تا کہ میں خلوت میں جا کر نماز پڑھوں اور یہ احوال اس راز جانے والے سے دریافت کروں۔ میرا خلوت میں نماز کے لیے جانا تعلیم
خلق کا راستہ ہے ۔
پھر حضرت داؤد چپ چاپ تنہائی میں چلے گئے ۔ آپ نے درواز و بند کر دیا اورمحراب میں جا کر دعا میں مصروف ہوئے۔ جتنا بتانا تھا خدا نے بتادیا اور داؤدعلیہ السلام اس مقدمے کے طریق سزا سے واقف ہو گئے ۔ دوسرے دن مدعی و مدعا علیہ داؤد کے پاس حاضر ہوئے ۔ پھر مقدمہ شروع ہو اور مدعی نے سخت گالی گلوچ شروع کی کہ پیغمبر برق کے عہد میں ایسا ظلم صریح ہو رہا ہے کہ گائے کو مار کر کھا گیا اور جواب دہی کے موقع پر اپنی نداری کا فریب دیتا ہے ۔ اے خدا کے رسول کیا یہ جائز ہے کہ گائے جو میری ملک تھی وہ خدا نے اسے دے دی۔ حضرت داؤد نے کہا کہ خاموش ہو جا اور اس کا پیچھا چھوڑ اور اس مسلمان کو اپنی گائے معاف کر دے ۔ اے جو ان جب کہ خدا نے تیرے گناہ کو پوشید ہ کیا ہے تو تو بھی اس کی ستاری کا حق ادا کر اور صبر کر لے ۔ اس نے واویلا مچانی شروع کی کہ یہ کیا حکم اور کیا انصاف ہے کہ مجھ غریب کے لیے نیا قانون وضع ہوا۔ اے داؤ د تمہارے عدل و انصاف سے تو زمین د آسمان معطر میں لیکن جو ستم مجھ پر ہوا ہے ایسا اندھے کتوں پر بھی نہ ہوا ہو گا۔ اس زیادتی سے تھر اور پہاڑشق ہو جائیں گے اسی طرح کی شکائتیں اعلانیہ کر رہا تھا اور ہم قلم پکارتا تھا۔ اسے نبی اللہ دیکھو! مجھ پر ایسا ظلم نہ کرو اور خلاف انصاف حکم نہ دو۔ حضرت داؤد نے جب سب کچھ سن لیا تو حکم دیا کہ ارے بدمعاش اپنا سارا مال اس کے حوالے کرور نہ تیرا معاملہ سخت ہو جائے گا اور تیر استم اس پر بھی آشکارا ہو جائے گا۔ اس نے اپنے سر پر خاک ازائی بچپڑے پھاڑ لیے اور کہا کہ آپ نے تو علم میں اور اضافہ کر دیا۔ جب وہ باز نہ آیا تو حضرت داؤد نے اس کو اپنے قریب طلب فرمایا اور کہا کہ اسے سیاہ بخت چونکہ تیری تقدیر درست نہیں اس لیے تیرے علم کا نتیجہ آہستہ آہستہ ظاہر ہوا۔ دیکھ اس وادیلا سے باز آنہیں یہ داد یلا تیری ہلاکت کا پیغام نہ بن جائے جا تیرے بچے اور بیوی اس کے لونڈی غلام بنا دیے گئے ۔ وہ دونوں ہاتھوں سے پتھر لے کر اپنا سینہ کوٹنے لگا اور اپنے جہل سے ادھر ادھر دوڑ نے الگا مخلوق بھی یہ حال دیکھ کر ترس کھانے لگی کیوں کہ ان احکام کی اصلی وجہ سے ناواقف تھی۔ سب طرف دار، داؤد علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ اے ہمارے شفیع نبی اللہ آپ کی ذات سے ایسا حکم نہ ہونا چاہئے ۔ آپ نے ایک بے گناہ پر بے وجہ قصہ کیا۔ داؤد نے کہا کہ دوستو ! اب و و وقت آن پہنچا کہ اس کا چھپا ہوا بھید ظاہر ہو۔ سب مل کر ہمارے ساتھ فلاں جنگل میں دریا کے کنارے چلو۔ اس جنگل میں ایک بہت بڑا گھنا درخت ہے اس کی ڈالیوں سے ڈالیاں ملی ہوئی ہیں ۔ وہ بہت تناور درخت ہے ۔ مجھے اس کی جد میں سے بوئے خون آتی ہے ۔ اس تناؤ درخت کے نیچے ایک آدمی کا خون کیا گیا ہے اور واقعہ یہ ہے ۔ کہ اس بد بخت نے اپنے مالک کو قتل کر کے اس میں ڈال دیا ہے ۔ یہ گائے والا دراصل مقتول کا غلام ہے۔ اس نے اپنے مالک کو قتل کر کے سارا مال لے لیا ہے ۔ یہ جوان مدعا علیہ اسی مقتول کا فرزند ہے ۔ یہ اس وقت بالکل نا سمجھ بچہ تھا اس لیے بے خبر ہے ۔ اب تک تو خدا کے حکم نے اس کے علم کو پوشیدہ رکھا تھا لیکن آخر میں اس بے حمیت کی ناشکری اس حد کو پہنچی کہ اپنے مالک کے بچوں کو دیکھنا تک چھوڑ دیانہ تو روز کون ان سے ملا نہ عہد میں جا کر ملاقات کی۔ ان بے کسوں کو بھی ایک لقمہ کھانا نہ دیا اور حقوق قدیم کو بالکل بھول گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک ادنی گائے کے لے اپنے مالک کے بچے کو زمین پر بچھاڑ ڈالتا ہے۔ اس نے اپنے گناہ کا پردہ خود ہی فاش کیا ہے۔ ورنہ شاید خدا اس کے جرم کو چھپا لیتا۔ اس ظلم کے زمانے میں کافر اور فاسق لوگ اپنا پردہ خود ہی چاک کیا کرتے ہیں۔ علم روح کی گہرائیوں
میں چھپا رہتا ہے ظالم اس کو لوگوں میں فاش کرتا ہے۔ جب سب لوگ جنگل میں اس درخت تک پہنچے تو حضرت داؤد علیہ السلام نے حکم
دیا کہ مدعی کے ہاتھ باند حد د یے جائیں پھر اس سے فرمایا کہ اسے کتے اپہلے تو نے دادا کو قتل کیا اس کی سزا میں تو مقتول کا غلام بنایا گیا۔ اس کے بعد اپنے مالک کو قتل کر کے تو نے سب مال پر قبضہ کرلیا۔ تیری ہوئی اس مقتول کی لونڈی تھی اس نے بھی اپنے مالک پر جفائیں کیں ہیں لہذا اب جواز کے لڑکیاں اس کے ہاں پیدا ہوں و وسب اسی مدعا علیہ کی ملکیت میں اور تو بھی اس کا غلام ہے۔ جو کچھ تو نے کما یا سب اسکی ملک ہوئی۔ چونکہ تو نے مطابق شرع فیصلہ کیا تھا لہذا یہ فیصلہ ہے جا اور اس کی تعمیل کر تو نے اپنے مالک کو اسی جگہ بڑی بے دردی سے قتل کیا اور اسی جگہ تیرے مالک نے کیسی کیسی منت سماجت کی۔ اسی جگہ تو نے اپنی چھری پردہ فاش ہونے کے خوف سے زمین میں دفن کر دی تھی۔ اسے لوگو زمین کھو دو دیکھو مالک کا سر چھری کے ساتھ دفن ملے گا اور اس چھری اس کتے کا نام بھی کندہ ملے گا۔ جب زمین کھودی گئی تو دیکھا کہ واقعی مقتول کا سر اور وہ چھری زمین میں دفن تھے۔ خلقت میں شور پیدا ہو گیا ۔ سب نے حضرت داؤد سے اپنی بدامنی کی معافی مانگی۔ اس کے بعد حضرت داؤد سے اپنی بدلنی کی معافی مانگی۔ اس کے بعد حضرت داؤد نے حکم دیا کہ اے فریادی آ اور اپنی داد فریاد کا نتیجہ دیکھ۔ پھر اسی چھری سے قاتل کو قصاص فرمایا۔ جب خود مدعی کے دعوے سے اصل بھید معلوم ہو گیا اور حضرت داؤد کا معجزہ دو
ٹوک ثابت ہوا تو ساری خلقت سر برہنہ حاضر ہوئی اور سب نے مل کر بڑی عاجزی سے عرض کی کہ ہم فطرتی اندھے تھے اس لیے آپ نے جو کچھ فرمایا تھا اس کا ہم نے اعتبار نہیں کیا۔ آپ ہمیں معاف فرمادیں۔ ایک ظالم مارا گیا اور ایک جہاں زندہ ہو گیا۔ اور ہر شخص کا خدا پر از
سرنو ایمان تازہ ہو گیا۔ اسے عزیز تو بھی اپنے نفس کو قتل کر کے ایک جہاں کو زندہ کر۔ گائے کا مدعی تیرازی نفس ہے جس نے اپنے کو امید اور بڑا آدمی بنالیا ہے اور وہ گائے کو ذبح کرنے والا تیری مقل ہے۔ ان کی گائے کو ذبح کرنے والے سے مخالفت و انکار نہ کر۔ عقل مقید ہے اور خدا سے ہمیشہ بے رنج و محنت روزی حلال کی طلب ہے۔ تو جانتا ہے کہ خدائی بے محنت روزی کسی کو ملتی ہے ؟ اسے جو گائے یعنی نفس کی خواہش کو ذبح کردے۔ معقل سلیم اصل وراث بے کس اور بے سرو سامان رہوگئی ہے اور خود غرض ، بے درد نفس ما لک سردار بن گیا۔ تو جانتا ہے کہ روزی بے محنت کیا ہوتی ہے ؟ وہ روح کی غذا اور رزق پاک ہے لیکن وہ گائے کی قربانی پر موقوف ہے۔ لہذا اسے جستجو کرنے والے تو نے گائے کے قتل کو ایک چھپا ہوا خزانہ سمجھے۔
مولانا روم مذکورہ حکایت میں یہ درس دیتے ہیں :
☆ اللہ کے حضور دعا کسی بھی صورت میں قبول ہوتی ہے ۔ وقت کا انتظار ہوتا ہے۔ پیغمبر اللہ کے فضل سے چھپے ہوئے راز کو اچھی طرح جانتا ہے لیکن وہ افشا کرنے کے لئے اللہ کی رضا چاہتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں