0

مولانا روم اور شمس تبریز کی ملاقات

مولانا روم اور شمس تبریز کی ملاقات

میں مولانا روم کا شمس تبریز کے مرید ہونے کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ اور علم وحکمت سے مزین ہے۔ زید العابدین نے مثنوی کے دیباچے میں لکھا ہے کہ شمس تبریز کو ان کے پیر با با کمال الدین جندی نے حکم دیا کہ روم جاؤ وہاں ایک مولانا صاحب ہیں۔ جو صاحب علم ۔ اپنے علم پر انہیں بہت فخر ہے۔ شمس تبریز اپنے مرشد کے حکم کے مطابق قونیہ پہنچے۔ شکر فروشوں کی کاروان سرائے میں اترے۔ مولانا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد ان کے مدرسے میں تشریف لے گئے ۔ مولانا اس وقت ایک حوض کے پاس چند کتب سامنے رکھے ہوئے مطالعہ میں مصروف تھے شمس تبریزی نے مولانا سے ملاقات کی، کتابوں کی تفصیل پوچھتے ہوئے فرمایا: “مولانا این چیست ؟ یہ کیا ہے؟ ایک عام آدمی سمجھتے ہوئے مولانا نے جواب دیا کہ ایں آں است تو نمی دانی یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں تم نہیں جانتے، شمس تبریز نے ان کتابوں کو اُٹھا کر تالاب میں ڈال دیا۔ مولانا گھبرا گئے کہ اس شخص نے میرے علم کو تالاب میں ڈال دیا ہے ۔ آپ نے مولانا کی گھبراہٹ کو دیکھتے ہوئے ۔ ان تمام کتب کو تالاب سے نکال دیں جو بالکل اسی حالت میں تھیں جس حالت میں تالاب میں پھینکا گیا تھا۔ مولانا یہ کرامت دیکھتے ہوئے حیران ہو گئے اور اس حیرانگی کے عالم پوچھا۔ ایں چیست؟ یہ کیا ہے؟ شمس تبریز نے فرمایا ” این آن است تو نمیدانی “ یہ ہ علم ہے جسے تو نہیں جانتا۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک دن مولانا روم کی سواری بڑے تزک و احتشام سے نکلی شمس نے سر راہ ٹوک کر پوچھا کہ مجاہدہ دریاضت سے کیا مقصد ہے؟ مولانا نے کہا اتباع شریعت شمس تبریز نے فرمایا ” یہ تو سب جانتے ہیں ۔ مولانا نے کہا اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے ” شمس نے فرمایا علم کے یہ معنی ہیں کہ تم کو منزل تک پہنچائے پھر انہوں نے حکیم بنائی کا یہ شعر پڑھا:
علم کو تو ترا نہ بتاند
جہل زان علم به بود بسیار مولانا جلال الدین رومی نے اپنی کایا پلٹنے اور فیضان معرفت حاصل کرنے کی نسبت اپنے علم سے نہیں بلکہ اس وقت کے قطب حضرت شاہ شمس تبریز سے کی ہے ۔ مولانا
فرماتے ہیں
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم گر غلام شمس تبریزی نه شد
ترجمہ: مولوی کسی بھی صورت میں مولانا روم نہ بنتا۔ جب تک کہ وہ شمس تبریزی کا غلام نہ بنتا۔
یعنی خود کو عالم فاضل سمجھنے والا مولوی ہرگز مولانا روم نہ بنتے اگر انہیں شاد شمس تبریز جیسا مرد درویش نہ ملتا۔ ایک اور جگہ مولا نانے مرید ہونے کے بعد فرمایا:
یک زمان صحبتی با اولیاء
بهتر از صد ساله طاعت بی ریا
ترجمہ: اللہ کے ولی کی صحبت میں گزرا ہوا ایک پل ریا کارانہ صد سالہ عبادت سے بہتر
ہے۔ اسی سلسلے کی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے امام بخاری اپنی تاریخ میں روایت کرتے
میں جس شخص نے کسی ظالم کے سامنے اس لیے قرآن پڑھا کہ اسے کچھ دن منفعت حاصل
ہو تو ایسے شخص کو ہر حرف کے عوض دی لعنتیں ملیں گی۔ مولانا روم کے سلسلہ بالٹی کے بارے میں ابن بطوطہ اپنے سفر نامے میں رقم طراز ہے ان کے فرقے کے لوگ جلالیہ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب جلال الدین تھا اس لیے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا لیکن آج کل ایشائے کو چک ، شام، مصر اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کو “مولویہ” کہتے ہیں۔ میں نے سفر کے دوران اس فرقے کے اکثر جلسے دیکھے ہیں یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں۔ جس میں جوڑ یا در ز نہیں ہوتی ، مشائخ اس ٹوپی پر عمامہ بھی باندھتے ہیں۔ فرقہ یا کرتہ کے بجائے ایک چینٹ دار پاجامہ ہوتا ہے ۔ ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں ۔ ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا بنا نہیں ہو تا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور بانسری بھی بجاتے ہیں لیکن میں نے سماع کی حالت نہیں دیکھی۔ چونکہ مولانا پر ہمیشہ ایک وجد اور سکر کی حالت طاری رہتی تھی اور جیسا کہ آگے آئے گا وہ اکثر جوش کی حالت میں ناچنے لگتے تھے ۔ مریدوں نے تقلیدا اس طریقے کو اختیار کیا حالانکہ یہ ایک غیر اختیاری کیفیت تھی جو تقلید کی چیز نہیں
حکایات رومی و دیگر سبق آموز حکایات
تصنیفات:
مولانا رومی کی گراں قدر اور علم و حکمت کے جواہرات سے مزین تصنیفات میں جو مشہور ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
مثنوی مولانا روم
مذکورہ کتاب تصوف کی دنیا کی سب کتابوں کی سرتاج کتاب تسلیم کی جاتی ہے ۔ اس شهره آفاق مثنوی کو جو بلند مقام و مرتبہ حاصل ہوا وہ آج تک ایران کی کسی تصنیف کے نصیب میں نہیں ہے۔ مثنوی کے اشعار کی تعداد 2666 بتائی جاتی ہے۔
فيه مافيه :
دیوان:
نے پچاس ہزار اشعار پرمشتمل یہ دیوان – دیوان مولانا روم کہلاتا ہے ۔ اس میں انہوں مقطعات میں اپنے پیرو مرشد شمس تبریز کا نام اتنا زیادہ استعمال کیا ہے کہ لوگ اسے دیوان شمس تبریز سمجھنے لگے۔
یہ مولانا کے روم کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ جن میں ان کے مرشد کا ذ کر زیادہ ملتا ہے۔
وفات:
عمر کا آخری حصہ اپنے مرشد کی یاد میں گزارا۔ یہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوائی۔ یہاں تک کہ طبعت ناز ساز رہنے لگی۔ دوا نے اپنا اثر چھوڑ دیا۔ جب جانے کی تیاری مکمل ہونے لگی تو پوچھا گیا کہ آپ کا نماز جنازہ کون پڑھائے گا تو فرمانے لگے مولانا صدرالدین۔ جمادی الثانی 672 کو ہفتہ کے دن مغرب کے وقت اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ وصیت کے مطابق مولانا شیخ صدرالدین نماز جنازہ پڑھانے کھڑے ہوئے ۔ نماز جناز ہ کیا پڑھایا۔ ایک پیچ منہ سے نکلی اور بے ہوش ہو گئے ۔ لہٰذا نماز جنازہ قاضی سراج الدین نے پڑھائی مولانا کی آخری آرام گاہ قونیہ میں ہے

حوالہ کتاب: حکایت رومی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

مولانا روم اور شمس تبریز کی ملاقات“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں