0

اللہ کی حکمت اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک اُمتی کا واقعہ

اللہ کی حکمت

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور کی بات ہے کہ ایک نوجوان حضرت موسیٰ کے پاس آیا۔ عرض کی اے اللہ کے پیارے نبی ۔ مجھے جانوروں کی بولی سکھا دیجئے ہو سکتا ہے کہ میں حیوانات اور درندوں کی زبان سیکھ اور سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے دین میں کوئی عبرت حاصل کروں ۔ کیونکہ میرے خیال میں انسانوں کی تمام باتیں تو دنیا داری کی ہیں ۔ ہو سکتا ہے ۔ جانوروں کی باتوں کا کوئی اور معمول ہو اور آخرت کے بارے میں ہوں ۔ مجھے یہ زبانیں سیکھنے کا بہت شوق ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ۔ اے بے وقوف انسان ! شاید مجھے شیطان ملعون نے بہکایا ہے ۔ تیرا یہ شوق درست نہیں ہے۔ نوجوان کہنے لگا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے نائب میں اگر آپ مجھے جانوروں کی زبانیں نہیں سکھائیں گے تو میں مایوس ہو جاؤں گا آپ مجھے سکھادیں آپ کا اس میں کیا نقصان ہے؟ جب اس نوجوان نے بے حد اصرار کیا تو حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے رجوع کیا اور فرمایا اے اللہ اگر میں اس کو جانوروں کی زبانیں سکھا دوں تو یہ بات اس کے لیے نقصان دہ ہوئی اور اگر نہیں سکھاتا تو اس کا دل برا ہوتا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہوا۔ اے موسیٰ ! اس کو سکھا دو تا کہ اس کو پتہ چلے کہ ہر کام میں کوئی بیکوئی حکمت ہوتی ہے ۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس بضد نو جو ان کو جانوروں کی زبانیں سکھا دیں۔ تو پھر کیا ہوا دیکھتے ہیں ۔ اس نوجوان نے اپنے گھر میں ایک کتا اور ایک مرغ پال رکھا تھا ایک دن صبح
کے وقت اس نے آزمائش کرنے کی خاطر مرغ اور کتے کی گفتگو سنے کا ارادہ کیا جب اس کی خادمہ نے کھانا کھانے کے بعد دستر خوان کو جھاڑا اور اس میں سے روٹی کا ایک چھوٹا سانگوا
زمین پر گر امرغ اور کتا دونوں اس روٹی کے ٹکڑے پر جھپٹے مگر مرغ اس کو اچک کر لے گیا۔ کتے نے مرغ سے کہا، اے ظالم ! تو نے اچک کر کھا لیا ہے ۔ یہ ٹکڑا مجھے کھا لینے دیتے تو تمہارا کیا جا تا اب پتہ نہیں مجھے کھانے کو کچھ ملے یا نہ ملے بھوک سے میرا برا حال ہوا جارہا ہے۔ مرغ نے کتے کی یہ بات سنی تو کہنے لگا، چپ ہو جا غم نہ کر۔ اللہ تعالیٰ اس سے بہتر تجھے کھانے کو خوراک دے گا کیل ہمارے آقا کا گھوڑ ا مر جائے گا تم پیٹ بھر کر اس کا گوشت کھالینا۔ اس نوجوان نے جب یہ سنا تو اسی وقت گھوڑا بازار لے جا کر فروخت کر دیا ۔ وہ گھوڑا شکایت کرتے ہوئے کہا، اے مرغ ! تو کس قدر چالاک اور جھوٹا ہے وہ چھوڑا جس کے بارے
دوسرے دن واقعی مر گیا۔ اس وقت اس نوجوان نے خدا کا شکر ادا کیا کہ نقصان سے بیچ رہا۔
مرغ جس نے گھوڑا مرنے کی بڑ ماری تھی۔ کتے کے سامنے شرمندہ ہوا۔ کتے نے مرغ سے
میں تم نے کہا تھا کہ کل مرے گا اور تم اس کا گوشت جی بھر کر کھانا وہ کہاں ہے؟ میں جھوٹ
نہیں کہتا تھا ہمارے آقا نے اپنا گھوڑا دوسری جگہ فروخت کر دیا اور وہاں جا کر مر گیا اس طرح ہمارا آقا نقصان سے بچ گیا اور اس نے اپنی بلا دوسروں کے سر ڈال دی لیکن کل ہمارے آقا کا خچر مرے گا اور تمہاری عید ہو جائے کی پیٹ بھر کر خچر کا گوشت کھا لینا ۔ اس شخص نے مرغ کی بات سنتے ہی چھر کو فروخت کر دیا اور اس طرح اس نقصان سے بچ گیا۔ اگلے دن کتے نے مرغ سے پھر شکوہ کیا اور کہا اے جھوٹوں کے سردار! تو آخر کب تک جھوٹ بولے گا، مرغ کہنے لگا کر نہ کر کل ہمارے آقا کا غلام بیمار پڑے گا اور رات کو مر جائے گا۔ اس کے رشتہ دار اس کے مرنے پر کتوں اور مانگنے والوں کو روٹیاں دیں گے تجھے بھی کچھ کھانے کو مل ہی جائیگا۔ جب اس شخص نے یہ سنا تو اسی وقت غلام کو فروخت کر ڈالا اور نقصان سے بچ گیا۔ وہ شخص بولیاں سمجھنے پر بہت خوش ہوا اور اتراتے ہوئے کہنے لگا کہ میں بہت بڑے نقصانات سے بچ گیا۔
دوسرے دن کتے نے مرغ سے پھر شکوہ کیا۔ تو جو کچھ کہتا ہے سب جھوٹ ہے۔ مرغ نے جواب دیا کہ جھوٹ بولنا ہماری سرشت میں نہیں ہے ہم مرغ تو مؤذن کی طرح بچ بولنے والے میں ہمارے آقا کا غلام مرتو گیا لیکن وہ خریدار کے پاس جا کر مرا اور نقصان خریدار کا ہوا لیکن ایک بات یاد رکھ کہ ہمارا آقا بڑا بے وقوف ہے جو اپنی بلا دوسروں کے سر ڈال رہا ہے۔ اس نے یہ تمام فروخت شدہ جانوروں اور ایک قیمتی انسان کے فروخت کرنے سے با ظاہر اپنا فائدہ کیا لیکن اس نے اپنا نقصان کیا ہے ۔ اگر گھوڑا، چھر اور غلام اس کے گھر میں مر جاتے تو ہمارے آقا کی جان کا فہ یہ ہوتا۔ کیونکہ مال اگر انسان کی جان پر قربان ہو جائے تو وہ نقصان نہیں ہے بلکہ نفع ہی نفع ہے لیکن ہمارے آقا نے اپنی جان پر بلا ڈال کر اپنے مال کو بچایا ہے اور سخت گھاٹے کا سودا کیا ہے ۔ اب میں تمہیں ایک اور سچی بات بتاتا ہوں کہ کل کو یقینا ہمارا آقا خود مر جائے گا اس کے غم میں جو لوگ اکٹھے ہوں کے گھر والے ان کے لیے گائے ذبح کریں گے اور طرح طرح کے لذیذ کھانے پکائیں گے اس میں تمہیں بھی بہت کچھ مل جائیگا  جب اس شخص ( نوجوان ) نے یہ بات سنی فورا حضرت موسی علیہ السلام کی حضور پیش ہوا۔ خوف کی وجہ سے اس کے چہرے کی رنگت اڑی ہوئی تھی، کہنے لگا۔ اسے اللہ کے پیغمبر! میری مدد فرمائیں بے شک مجھ سے غلطی ہوگئی جو میں نے جانوروں کی بولیاں سمجھنے اور سیکھنے کی درخواست کی تھی۔ میں آپ سے معافی مانگتا ہوں مجھے موت کے منہ میں جانے سے بچا لیں۔ ضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس شخص کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا اے بے وقوف ! اب یہ بات بڑی دشوار ہے کیونکہ آئی ہوئی قضائل نہیں سکتی۔ میں نے تو اس قضا کو اسی دن دیکھ لیا تھا جو تجھ پر آج ظاہر ہوئی ہے۔ لہذا اللہ کی رضا کو قبول کر۔
مولا تا روم مذکورہ حکایت میں یہ درس دیتے ہیں :
اللہ کا نبی جس سے رو کے اس سے رک جاؤ ۔ اصرار مت کرو ۔ ہی اللہ کے نبی کو خدا کے فضل و کرم سے ہر بات کی آگاہی ہوتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں