0

جسم اور روح کا واسطہ

جسم اور روح کا واسطہ

جسم اور روح کی نسبت اگر مفہوم سے ہوتی ہے تو صرف اس قدر جیسا کہ پانی کی نہر سے یا پرندے کی گھونسلے سے، ان کا تعلق در حقیقت غیر معلوم ہے ۔ روح کی قوت فکر یہ میں ہمیشہ اچھے بڑے خیالات آتے رہتے ہیں ۔ جیسے پانی بظاہر ٹھہرا ہوا نظر آتا ہے لیکن رواں ہوتا ہے۔ اسی طرح سے روح ملاء اعلیٰ کی طرف سے رواں ہے لیکن اس کا احساس نہیں ہوتا۔ پانی کی روانی خس و خاشاک کے گذرنے سے معلوم ہو جاتی ہے اس طرح روح کی قوت فکر یہ میں مختلف خیالات کے آنے سے اس کی روانی ہوتی ہے۔ روح کی قوت فکر یہ کی سطح پر جو چھلکے ہیں وہ نیبسی پھلوں کے چھلکے ہیں۔ ان پھلوں کا مغز غیب کے خزانہ میں تلاش کر۔ لا محالہ اس کا کوئی منبع ہے ۔ عام عارفوں کی روح کی روانی تیز ہے ۔ اس لئے اس پر غم و
غصہ کے خس و خاشاک زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے۔
مولانا روم مذکورہ حکایت میں یہ درس دیتے ہیں :
☆ دل میں بڑے خیالات کا آنا روح کی روانی کا پیش خیمہ ہے۔
☆ روح اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔
…..….
حکایت

صوفی کا وجد میں آنا

ایک صوفی نے جب اپنا دستر خوان خالی دیکھا تو وجد میں آگیا اور رقص کرنے لگا۔
دوسرے سوئی بھی اس کے ساتھ مل گئے وہ خوب نعرے مار ہے تھے اور بہت خوش تھے۔
اسی خوشی اور ستی میں وہ بے خود ہو گئے۔ ایک نا سمجھ انسان نے صوفی سے پوچھا کہ تمہارا دستر خوان تو روٹی سے خالی ہے اس پر اتنی خوشی اور مستی چہ معنی دارد سونی نے جواب دیا کہ تو طالب وجود ہے ہماری بات کو نہیں سمجھ سکتا۔ ہم روٹی کے نہ ہونے کے طالب ہیں عشق ہمیں روٹی کا کام دیتا ہے۔ ہم ہر چیز کی فنا کے طالب ہیں۔ جس طرح عاشقوں کا نفع بغیر سرمایہ کے ہوتا ہے اسی طرح ہم جیسے لوگ بغیر پروں کے پرواز کرتے ہیں۔
مولانا روم مذکورہ حکایت میں یہ درس دیتے ہیں :
صوفی کے نزدیک فناہی بقا ہے۔
☆ درد اور غم عاشقوں کی غذا ہے اس غذا سے وہ ہمیشہ جو ان نظر آتے ہیں۔
حکایت

آگ پانی کا کام دیتی ہے

حضرت انس کے گھر میں ایک شخص مہمان ہوا۔ کھانا کھاتے وقت اس نے محسوس کیا کہ دستر خوان کافی حد تک پیلا ہو گیا ہے ۔ انہوں نے حضرت انس سے درخواست کی کہ اس دستر خوان کو دھو دیا جائے ۔ آپ نے خادمہ کو بلایا اور حکم دیا اس دستر خوان کو تندور میں ڈال دیا جائے۔ وہاں بیٹھے ہوئے تمام مہمان حیران رہ گئے ۔ وہ اس دستر خوان کے جل جانے کے انتظار میں تھے۔ آپ نے تھوڑی دیر بعد اس دستر خوان کو تندور سے نکال لینے کا حکم دیا۔ جو صحیح سلامت میل کچیل سے صاف اور پہلے سے کہیں بہتر حالت میں تھا مہمانوں نے اس کے نہ جلنے کی وجہ پوچھی۔ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ منہ اس سے صاف کیا تھا۔ اب یہ نہیں ملتا۔ حضور کریم سی پر پریم جس کو ہاتھ لگا دیں آگ کی کیا مجال کہ وہ اس کو جلا دے ۔
☆ مولانا روم مذکورہ حکایت میں یہ درس دیتے ہیں:
84
ایک بے وقوف حضرت عیسی علیہ السلام کا ہم سفر تھا۔ اسے یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام مردوں کو زندہ کرنے کا علم جانتے ہیں۔ سفر کے دوران ان کا گزر ایک قبرستان میں سے ہوا۔ اس شخص نے حضرت عیسی علیہ السلام کو کہا کہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ علیہ السلام مجھے بھی وہ علم سکھا دیں جس سے آپ علیہ السلام مردوں کو زندہ کرتے ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام کو اس کی یہ بات ناگوار گزری ۔ آپ نے اسے کہا خاموش ہو جا۔ یہ ترا کام نہیں ہے ۔ تیری سانسوں میں اور تیری زبان میں وہ تاثیر نہیں ہے ۔ اس کام کے لئے ایسی سانس چاہیے جو بارش سے زیادہ پاک ہو اور رفتار میں فرشتوں سے زیادہ تیز ہو جو آسمان کے خزانوں کا امین بننے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اس شخص نے کہا اگر میں اس قابل نہیں ہوں تو آپ علیہ السلام اس قبر میں پڑے ہوئے مردے کو زندہ کر دیں ۔
حکایت
حضرت عیسی علیہ السلام نے اس شخص کی بات کو مانتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کیا اور کہا کہ یا باری تعالیٰ! اس شخص کو اپنی کچھ فکر نہیں اور اس مردے کا غم اسے بے
چین کئے جا رہا ہے یہ کیا ماجرا ہے؟
رب تعالی کی طرف سے ندا آئی شخص بد بخت ہے اور باٹنی کا متلاشی ہے ۔ اس کی کھیتی کا پھل کانٹے ہیں اور جو شخ دنیا میں بد بخت اور فضولیات کے بیج بوئے گا اس کو لستان میں تلاش مت کرنا۔ ایسے شخص کے ہاتھ میں بظاہر تو نیک اعمال کے پھول ہوں گے مگر تو ان میں کانٹا بن جائے گا۔ خبردار! ایسے شخص کے قول و فعل پر بھروسہ نہ کرنا۔ ایسا شخص بے ثمر
اور بے فیض ہے۔
☆مولانا روم مذکورہ حکایت میں یہ درس دیتے ہیں :
خبردار! دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بظاہر بڑے صوفی اور پاک باز میں لیکن
اندر سے اتنے بد بخت ۔ ایسے لوگوں کے دھوکے میں مت آئیں۔ ایسے لوگوں کے عمل اور فعل میں تضاد ہوتا ہے۔ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں.
حکایت

ظاہری صورت پر مت جاؤ

کسی کی روح کی پہچان اس کے طرز گفتگو سے کی جاتی ہے۔ اس کی کیفیات کیا ہیں اس کی پہچان اس کے بات کرنے کے ڈھنگ سے معلوم ہوتی ہے۔ ریا کاری کی تسبیح سے بچھے ظاہری نقش دصورت پر نہ جاؤ بلکہ حسن سیرت طلب کرو حق کے ارادے حق کے فکر و خیال سے ہی جہان کا ظہور ہے اور اسی ایک کا وجود ہر طرف جلوہ نما ہے ۔ رضائے الہی کے نور پر بھی مقدر کے ہاتھوں خاک پڑ سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات میں خود کو فنا کر کے ہی آسودگی حاصل ہوسکتی ہے اور اس اسے اولیا کرام رحمہ اللہ علیہ کویت ن حق کی پیوستگی میسر آتی ہے خلق ان کے وجود سے فیضان حاصل کرتی ہے اور ایسے اللہ والوں کا ذکر کرو تو خود ذات لبیک کہتی ہے۔
مولانا روم مذکورہ حکایت میں یہ درس دیتے ہیں :
☆ جو شخص خود کو فنافی اللہ کے مقام تک لے جاتا ہے وہی منصب ولایت پر فائز ہوتا ہے۔
☆ کسی شخص کے ظاہر پر توجہ مت دو۔ اگر اس کا بطن اچھا ہے تو ظاہر میں کیا رکھا ہے۔

سچی تو بہ کا انجام

ایک نوجوان قصائی اپنے کسی پڑوس کی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہوگیا۔ لڑکی کے گھر والوں نے کسی کام سے لڑکی کو ایک دوسری بستی میں بھیجا۔ قصائی کو علم ہوا تو وہ بھی اس کے
پیچھے پیچھے چل پڑا اور راستے میں اسے روک کرگناہ پراکسایا۔
لڑکی چوں کہ خدا ترس اور پار ساتھی تو اس نے کہا: اس میں تیرے لیے بھی خیر ہے اور میرے لیے بھی۔ میرے دل میں تیرے لیے اس سے کہیں زیادہ محبت ہے جتنی تیرے
دل میں میرے لیے ہے۔ مگر اللہ سے ڈرتی ہوں۔
عاشق نوجوان نے کہا: تو اللہ سے ڈرے اور میں نہ ڈروں! یہ کیسے ممکن ہے؟ چنانچہ اس نے اسی وقت تو بہ کی اور واپس لوٹ گیا۔ راستے میں اسے پیاس لگی اور اتنی شدت
سے لگی کہ موت قریب آنے لگی۔ اتنے میں بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے کسی نبی کا قاصد اُدھر نکل آیا۔ اس نے حال دریافت کیا۔ میں نے پیاس کی شکایت کی۔ قاصد نے کہا: آؤ ہم دونوں مل کر دعا کریں کہ اس گاؤں تک پہنچنے کے عرصے میں ہم برابر سایہ میں رہیں ۔ قصائی نے کہا: میرے پاس کوئی نیک عمل نہیں ہے جس کے واسطے سے دعا مانگوں! اس لیے تم
مانگو – قاصد نے کہا: بہتر چلو میں دعا کرتا ہوں تم آمین کہنا۔
قاصد نے دعا شروع کی اور وہ شخص آمین کہتا رہا۔ اتنے میں یکا یک ایک ابر کا ٹکڑا ان دونوں کے سروں پر آ کر سایہ فگن ہو گیا۔ انہوں نے سفر شروع کیا منزل پر پہنچنے کے بعد جب وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو ابر کا ٹکر ا قصائی کے ساتھ ساتھ ہو لیا۔ قاصد نے اس سے کہا کہ تیرا خیال یہ تھا کہ تیرے پاس کوئی نیک عمل نہیں، اسی لیے میں نے دعا
کی اور تو نے امین کہی تھی۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ ابر کار پکڑا جو ہم دونوں پر سایہ کیسے ہوئے تھا تیرے ساتھ ساتھ چلا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ مجھے اپنے بارے میں صحیح صحیح ہوا۔ قصائی نے اپنی تو بہ کا واقعہ تفصیل سے منادیا۔ جسے سن کر قاصد نے کہا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو بہ کرنے والے کی جو قد رو منزلت ہے وہ کسی دوسرے کی نہیں ہے۔
مولانا روم مذکورہ حکایت میں یہ درس دیتے ہیں :
کچی نیست سے تو بہ کی جائے تو فوری قبول ہوتی ہے۔
نیک نیت نیک مراد اللہ تعالیٰ کی ذات پاک نیت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں