0

اندھے کا دیکھنا

اندھے کا دیکھنا

ایک بڑا شہر تھا۔ اتنا بڑا کہ اس میں دس شہروں کے آدمی رہتے تھے۔ تین قسم کے نادان تجر بہ کا بھی رہائش پذیر تھے۔ ایک تو وہ تھا کہ دور کی چیز دیکھتا تھا مگر آنکھوں سے اندھا تھا۔ حضرت سلیمان کے دیدار سے تو اس کی آنکھیں بے نصیب تھیں لیکن چیونٹی کے پاؤں دیکھ لیتا تھا۔ دوسرا بہت تیز سننے والا تھا مگر بالکل بہرا تھا جبکہ تیسر ا مردہ جسم کمزور اور بنگا لیکن اس کے کپڑوں کے دامن بہت لمبے لمبے تھے ۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اندھے نے کہا دیکھو ایک گروہ آرہا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ کون سی قوم ہے اور اس میں کتنے آدمی ہیں۔ بہرے نے کہا کہ ہاں میں نے بھی

ان کی باتوں کی آواز سنی ہے۔ نگے اور کمزور نے کہا کہ بھائی مجھے یہ ڈر لگ رہا ہے کہ نہیں میرے لمبے لمبے دامن نہ کتر لیں ۔ اندھے نے کہا کہ دیکھو ! وہ لوگ نزدیک پہنچ گئے ، ارے جلدی اٹھو، مار پیٹ یا کہ ہاں ان کے پیروں کی چاپ نزدیک پکڑ دھکڑ سے پہلے ہی نکل جائیں ۔ بہرے نے کہا ہوتی جاتی ہے، اے دوستو ! ہوشیار ہو جاؤ ۔ ننگے نے کہا کہ بے شک بھا گو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میرا دامن کتر لیں میں تو بالکل ہی خطرے میں ہوں ۔ الغرض تینوں خوف کے مارے بھاگ کر باہر نکلے اور ایک گاؤں میں پہنچے ۔ اس گاؤں میں انہوں نے ایک خوب موٹا تازہ مرغ پایا لیکن بالکل ہڈیوں کی مالا کے ذراسا بھی گوشت اس میں نہ تھا۔ اندھے نے اسے دیکھا۔ بہرے نے اس کی آواز سنی اور تنگے نے پکڑ کر اپنے دامن میں لے لیا۔ وہ مرغ مرکز خشک ہو گیا تھا اور کوے نے اس میں چونچیں ماری تھیں۔ ان تینوں نے ایک دیگ منگائی جس کا نہ رہا نہ تھا نہ پیندا بس اس کو چولہے پر چردها دیا۔ ان تینوں نے وہ موٹا تازہ مرغ دیگ میں ڈالا اور پکانا شروع کیا اور اتنی آنچ دی کہ ساری بڑیاں گل کر حلوا ہوگئیں پھر جس طرح شیر اپنا شکار کھاتا ہے اس طرح تینوں نے وہ مرغ کھایا اور ہر ایک نے ہاتھی کی طرح سیر ہو کر کھایا۔ وہ تینوں اس ایک مرغ کو کھا کر بہت گراں ڈیل ہاتھی کی طرح موٹے تازے ہو گئے ۔ ان کا موٹاپا اتنا بڑھا کہ ہر ایک چوڑے چکلے پن کی وجہ سے جہاں میں نہ سماتا تھا۔ مگر اس مٹاپے کے باوجود وہ دروازے کے سوراخ میں سے نکل جاتے تھے۔

مخلوق کو ہو کیا گیا ہے؟ کہ دنیا کی ہر شے پیٹ میں اتارے اور کھا کھا کر خوب موٹی ہو جائے ۔ خواہ وہ چیز جو ظاہر میں چرب اور اچھی نظر آتی ہے۔ حقیقت میں کیسی ہی گندی اور ناجائز کیوں نہ ہو، اسے اپنے پیٹ بھر نے سے کام ہے لیکن دوسری طرف تو بات یہ ہے کہ اسے موت کے راستے پر چلے بغیر چارہ نہیں اور یہ وہ عجیب راستہ ہے کہ دکھائی نہیں دیتا ایک کے پیچھے ایک قافلے کے قافلے دروازے کے روزن سے نکلے چلے جاتے ہیں اور وہ روزن دکھائی نہیں دیتا بلکہ خود اس دروازے کا پتہ نہیں چلتا جس کے روزن سے یہ قافلہ گزرا چلا جاتا ہے۔ اس قصے میں امید کی مثال بہرے کی ہے کہ ہماری موت کی خبر تو سنتا ہے مگر اپنی موت کی خبر نہ سنتا ہے نہ اپنے کو گزرنا ہوا دیکھتا ہے ۔ حرص کی مثال اندھے کی ہے کہ مخلوق کے ذراذرا سے عیب کو دیکھتا ہے اور کوچہ بہ کو چہ تشہیر کرتا ہے لیکن اس کی اندھی آنکھ اپنا عیب ذرہ برابربھی نہیں دیکھتی اور نگا ڈرتا ہے کہ کہیں اس کا دامن دکتر لیں تو بھلا ننگے کے پاس دھرا ہی کیا ہے کہ اس کا دامن کتر جائے گا۔ یہ دنیا دار شخص ہے کہ دنیا میں بنکا آیا ہے اور نگاہی جاتا ہے مگر ساری عمر چوری کے غم میں اس کا جگر خون رہتا ہے ۔ ایسا آدمی اپنی موت کے وقت اور بھی واویلا مچاتا ہے لیکن اس وقت خود جان خوب ہستی ہے کہ زندگی میں یہ شخص کسی چیز کا خوف کھایا کرتا تھا۔ اس گھڑی روپے والے کو تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل وہ بالکل مفلس تھا اور صاحب جس کو پتہ چلتا ہے کہ زندگی کیسی ہے

ہنری میں گزری۔

مولانا روم مذکورہ حکایت میں یہ درس دیتے ہیں:

 

☆ سارے علوم کی جان یہ ہے کہ تو جانے کہ اس باز پرس ( قیامت ) کے دن تیرا درجہ کیا ہوگا۔ اپنی اصل پر غور کر جو تیرے سامنے ہے۔ علم اصول یا معقولات جاننے سے بہتر ہے کہ تو اپنی اصلیت کو جانے۔

حوالہ کتاب: حکایت رومی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں